بصد فریب اسے کیا سے کیا دکھائی دے
بصد فریب اسے کیا سے کیا دکھائی دے
کہ ابتدا میں جسے انتہا دکھائی دے
کبھی تو کوہ گراں تک نظر نہیں آئے
کبھی ہوا کا مجھے نقش پا دکھائی دے
تمام رشتوں کی بنیاد ہلنے لگتی ہے
جب آئنے میں کوئی دوسرا دکھائی دے
تلاش کرتی ہے دنیا اسی کے نقش قدم
وہی جو بھیڑ میں سب سے جدا دکھائی دے
یہ ہے ہماری سیاست کہ دل پڑوسی کا
ہمارے دل میں دھڑکتا ہوا دکھائی دے
فلک کو تاکتے اس نے گزار دیں صدیاں
اسے امید تھی شاید خدا دکھائی دے
یہاں فرات ہے گنگا ہے اور جمنا بھی
قدم قدم پہ مگر کربلا دکھائی دے
یہ شہر شہر خموشاں ہے اہل دانش کا
کہیں تو ایک کوئی سر پھرا دکھائی دے
یہ وقت کا ہے تقاضہ کہ ہے فریب نظر
کہ بیٹا باپ کے قد سے بڑا دکھائی دے
نہ جانے کیسا نشہ ہے غزل کہ تاج محل
کبھی ردیف کبھی قافیہ دکھائی دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.