بادل برس کے کھل گیا رت مہرباں ہوئی
بادل برس کے کھل گیا رت مہرباں ہوئی
بوڑھی زمیں نے تن کے کہا میں جواں ہوئی
مکڑی نے پہلے جال بنا میرے گرد پھر
مونس بنی رفیق بنی پاسباں ہوئی
شب کی رکاب تھام کے خوشبو ہوئی جدا
دن چڑھتے چڑھتے بسری ہوئی داستاں ہوئی
کرتے ہو اب تلاش ستاروں کو خاک پر
جیسے زمیں زمیں نہ ہوئی آسماں ہوئی
اس بار ایسا قحط پڑا چھاؤں کا کہ دھوپ
ہر سوکھتے شجر کے لیے سائباں ہوئی
گیلی ہوا کے لمس میں کچھ تھا وگرنہ کب
کلیوں کی باس گلیوں کے اندر رواں ہوئی
آنا ہے گر تو آؤ کہ چلنے لگی ہوا
کشتی سمندروں میں کھلا بادباں ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.