بادباں کہہ رہے تھے ناؤ سے
کوئی بچتا نہیں بہاؤ سے
آگ ہی آگ ہوں فقط میں بھی
کیوں رہوں دور اس الاؤ سے
کس قدر دل نشیں ہے غم تیرا
روشنی پھوٹتی ہے گھاؤ سے
لوگ سستا سمجھنے لگتے ہیں
ملنا پڑتا ہے رکھ رکھاؤ سے
اشک نعمت ہیں یہ سمجھ آیا
رات اور دن کے بھید بھاؤ سے
خوش رہی ہوں تو بچ گئی ورنہ
کون بچتا ہے دکھ کے داؤ سے
بولنا سیکھ ہی لیا آخر
نیلی چڑیا نے اک مکاؤ سے
شکر صد شکر خوب چمکی ہے
شاعری درد کے دباؤ سے
آپ پورا ہی کھو چکے مجھ کو
کیا ملا باہمی تناؤ سے
ڈر ہی لگتا ہے احتیاط سے اب
بچتی پھرتی ہوں بچ بچاؤ سے
تھک بھی جاؤں تو رک نہیں سکتی
دو قدم دور ہوں پڑاؤ سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.