باغ بہشت زیست بنا کر چلا گیا
باغ بہشت زیست بنا کر چلا گیا
جو بجھ گئے چراغ جلا کر چلا گیا
ویسے تو اس کے پاس ذرا بھی سمے نہ تھا
کچھ وقت پھر بھی ساتھ بتا کر چلا گیا
اب تک سلگ رہا ہے یہ دل اس کے عشق میں
وہ تو مزے سے آگ لگا کر چلا گیا
آیا تھا چار دن کو مری زندگی میں وہ
اور چار دن کا ساتھ نبھا کر چلا گیا
عالم تھا غم گساری کا رنج و الم کا پھر
تجویز غم رہائی سنا کر چلا گیا
کیوں برقرار ہے مری نظروں کی تشنگی
جب کے وہ جاں نثار تو آ کر چلا گیا
یوں جلوہ ہائے حسن مجسم ہوئے عیاں
اہل خرد کے ہوش اڑا کر چلا گیا
توبہ رے آشیان تخیل پہ برہمی
برق تپاں سے اس کو جلا کر چلا گیا
آیا تھا وہ پلٹ کے ندامت کے واسطے
دو چار باتیں اور سنا کر چلا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.