باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے
جوہر تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم
ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب اگاتا ہے مجھے
مدعا محو تماشائے شکست دل ہے
آئنہ خانہ میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے
نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کف خاک
آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے
زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے
باغ تجھ بن گل نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
چاہوں گر سیر چمن آنکھ دکھاتا ہے مجھے
شور تمثال ہے کس رشک چمن کا یا رب
آئنہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے
حیرت آئنہ انجام جنوں ہوں جیوں شمع
کس قدر داغ جگر شعلہ اٹھاتا ہے مجھے
میں ہوں اور حیرت جاوید مگر ذوق خیال
بہ فسون نگۂ ناز ستاتا ہے مجھے
حیرت فکر سخن ساز سلامت ہے اسدؔ
دل پس زانوئے آئینہ بٹھاتا ہے مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.