باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئیں گے
باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئیں گے
ہم سے یہ پوچھنا کبھی ہم گھر بھی آئیں گے
خود آہنی نہیں ہو تو پوشش ہو آہنی
یوں شیشہ ہی رہو گے تو پتھر بھی آئیں گے
یہ دشت بے طرف ہے گمانوں کا موج خیز
اس میں سراب کیا کہ سمندر بھی آئیں گے
آشفتگی کی فصل کا آغاز ہے ابھی
آشفتگاں پلٹ کے ابھی گھر بھی آئیں گے
دیکھیں تو چل کے یار طلسمات سمت دل
مرنا بھی پڑ گیا تو چلو مر بھی آئیں گے
یہ شخص آج کچھ نہیں پر کل یہ دیکھیو
اس کی طرف قدم ہی نہیں سر بھی آئیں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.