باہر جو اڑ رہی ہے یہ اندر کی ریت ہے
باہر جو اڑ رہی ہے یہ اندر کی ریت ہے
آنکھوں میں بکھرے خواب کے منظر کی ریت ہے
میں پیاس کا تقاضا کروں کس زبان سے
صحرا کے پاس میرے سمندر کی ریت ہے
آنکھوں میں بیٹھ جائے تو اڑتی نہیں کبھی
یہ آس کس چٹان کے پتھر کی ریت ہے
ملبہ نہ بولے کوئی بھی خوابوں کی گرد کو
یہ دشت بے کراں کے برابر کی ریت ہے
اڑتی رہے گی چاروں طرف شور کی طرح
یہ خامشی بھی ایک بونڈر کی ریت ہے
نفرت کی اینٹ کھوکھلے گارے سے مت بنا
دیوار جانتی ہے یہ کنکر کی ریت ہے
جس کو سمیٹنے میں دھنسی جا رہی ہوں میں
اک ہاتھ سے پھسلتے ہوئے گھر کی ریت ہے
قربانیوں کے فیض سے خاک شفا بنی
میدان کربلا میں بہتر کی ریت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.