باہر کا ماحول تو ہم کو اکثر اچھا لگتا ہے
باہر کا ماحول تو ہم کو اکثر اچھا لگتا ہے
شام سے اک دن گھر میں رہ کر دیکھیں کیسا لگتا ہے
کس کی یادیں کس کے چہرے اگتے ہیں تنہائی میں
آنگن کی دیواروں پر کچھ سایہ سایہ لگتا ہے
جسموں کے اس جنگل میں بس ایک ہی رام کہانی ہے
غور سے دیکھو تو ہر چہرہ اپنا چہرا لگتا ہے
موسم کی عیاش ہوا نے کچے پھل بھی توڑ لیے
شاخ پہ لرزاں پتا پتا سہما سہما لگتا ہے
دانہ دانہ دام لگا ہے جال بچھا ہے پانی پر
ہائے رے یہ معصوم کبوتر کتنا بھولا لگتا ہے
سرخ پرندہ ڈوب رہا ہے کالی جھیل کے پانی میں
سچ کہنا اے ساحل والو تم کو کیسا لگتا ہے
سائے کی امید نہ رکھیے پتھر کی چٹانوں سے
بوسیدہ دیوار کا سایہ پھر بھی سایہ لگتا ہے
محرومی کی تصویریں بھی کتنی دلکش ہوتی ہیں
تھک کر سونے والے کو ہر خواب سنہرا لگتا ہے
اڑ کے پرندے پار نہ پائیں شام کو تھک کر لوٹ آئیں
ہوشؔ مجھے یہ سارا عالم ایک جزیرہ لگتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.