باہر خلا ہے ذات کے اندر بھی کچھ نہیں
باہر خلا ہے ذات کے اندر بھی کچھ نہیں
دیکھو تو ڈر بہت ہے مگر ڈر بھی کچھ نہیں
پھولوں کی سیج کچھ نہیں بستر بھی کچھ نہیں
گم گشتہ آدمی کے لیے گھر بھی کچھ نہیں
بوڑھے شجر اکھڑ گئے تو کیا مضائقہ
پاگل ہوا چلے گی تو پتھر بھی کچھ نہیں
آتش مزاج لوگ بھی کہتے سنے گئے
سورج بھی وہم ہے مہ و اختر بھی کچھ نہیں
آئینہ وار خوش ہیں بہت بے لباسیاں
جیسے کہ ننگ و نام کی چادر بھی کچھ نہیں
یہ کیا کہ موسم ستم ایجاد کے لیے
برگ و ثمر بھی ہیچ گل تر بھی کچھ نہیں
مجھ کو حقیر کہنے سے پہلے یہ سوچ لے
قطرہ جو کچھ نہیں تو سمندر بھی کچھ نہیں
آوارگان شوق کے آگے ہوا تو کیا
محشر قدم بلاؤں کے لشکر بھی کچھ نہیں
فکر سخن میں خون جلا کر پتہ چلا
سودا بھی ایک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں
ترک طلب بھی سوچیے تنہاؔ تو ٹھیک ہے
لیکن پھر اپنے شوق سے بہتر بھی کچھ نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.