بال کھولے لب دریا جو نہانے کے لئے
بال کھولے لب دریا جو نہانے کے لئے
مچھلیاں کانوں کی تڑپیں اتر آنے کے لئے
ہم تو کیا روح بھی سو جان سے دوڑی آتی
آدمی کوئی بھی بھیجا تھا بلانے کے لئے
آ گیا درد جو پہلو میں تڑپتے دیکھا
بڑھ چلا درد جگر دل کو اٹھانے کے لئے
سن نہ پوچھو ابھی کیا ہے کہ جوانی ان کی
گود میں آئی ہے بچپن کو کھلانے کے لئے
بات رکھ لی تری محفل میں بھی چلتے چلتے
درد دل آپ اٹھا میرے بٹھانے کے لئے
ہوگی خفت انہیں دم توڑ چکا ہے صفدرؔ
ایسے روٹھے کہ نہ آئیں وہ منانے کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.