بالائے فرش گر نہ تہہ آسماں رہے
بالائے فرش گر نہ تہہ آسماں رہے
یہ آدمی بتاؤ کہ جا کر کہاں رہے
آئے ہیں زندگی میں کچھ ایسے بھی مرحلے
میں تھا مگر نہ ساتھ مرے رازداں رہے
کٹ جائے سر یہی تو ہے پیغام کربلا
باقی مگر نماز رہے اور اذاں رہے
منظور شہر دل میں بسانا نہیں اگر
پھر وہ جگہ بتا دو یہ عاشق جہاں رہے
منزل سمٹ کے خود ترے قدموں میں آئے گی
یہ شرط ہے کہ ہمت مرداں جواں رہے
اس مصلحت پرست کو جینے کا حق نہیں
منہ میں زبان رکھ کے بھی جو بے زباں رہے
کردار ایسا ہو پس مردن میں بزم میں
احباب کی زباں پہ تری داستاں رہے
یہ جان کر کیا گیا ہے عہد دوستی
طرفین کے علاقوں میں امن و اماں رہے
صحرا نوردیوں میں گزاری ہے زندگی
ہم گلستان دہر میں بے آشیاں رہے
ظالم نے سوچ کر یہ زباں کاٹ دی کششؔ
مظلوم کی زباں پہ نہ آہ و فغاں رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.