باقی ہے ابھی زلف میں خم اور ذرا سا
باقی ہے ابھی زلف میں خم اور ذرا سا
اے حسن کرم اور کرم اور ذرا سا
خیمے نہ لگاؤ کہ بہت پاس ہے منزل
بڑھتے رہو دو چار قدم اور ذرا سا
صحراؤں سے نکلا تھا کبھی چشمۂ زمزم
آتی ہے صدا آج بھی تھم اور ذرا سا
اک عمر سرابوں کو سمجھتے رہے دریا
رہنے دو ہمارا یہ بھرم اور ذرا سا
پھر چاند نے بادل میں چھپا رکھا ہے چہرہ
پھر ہجر کا بڑھ جائے نہ غم اور ذرا سا
جاگا ہے کوئی درد تو ہم جاگ اٹھے ہیں
کچھ اور ستم اور ستم اور ذرا سا
آئینۂ دل ٹوٹنے والا ہے سر شام
کرچوں میں بکھر جائیں گے ہم اور ذرا سا
اقبالؔ ہیں امڈے ہوئے بادل ابھی دل میں
اے چشم ذرا اور ہو نم اور ذرا سا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.