باقی جو لوگ ہیں کہیں ہوتے
باقی جو لوگ ہیں کہیں ہوتے
شہر میں بس تمہیں مکیں ہوتے
راستے سب اگر حسیں ہوتے
فاصلے پیدا ہی نہیں ہوتے
ہائے وہ آسمان بھی کیا تھا
میں نے دیکھا جسے زمیں ہوتے
تو ہی تو ہے تری کہانی میں
کاش ہم بھی کہیں کہیں ہوتے
یہ ستون آندھیوں میں کیوں گرتے
گر ذرا اور تہ زمیں ہوتے
بس میں ہوتی جو گردش دوراں
تم جہاں ہوتے ہم وہیں ہوتے
پیار کیا صرف جی حضوری ہے
آپ ناراض کیوں نہیں ہوتے
پھول اترا رہے ہیں خوشبو پر
کاش تم بھی یہیں کہیں ہوتے
یہ بھی سچ ہے کہ روبرو تیرے
ہم جو ہوتے ہیں وہ نہیں ہوتے
- کتاب : ہجر کی دوسری دوا (Pg. 70)
- Author : فہمی بدایونی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.