بار بار جیتے ہیں بار بار مرتے ہیں
بار بار جیتے ہیں بار بار مرتے ہیں
یوں وفا کی دنیا میں اپنے دن گزرتے ہیں
آج گیسوئے ہستی عصر نو کے شانے سے
اتنے ہی الجھتے ہیں جس قدر سنورتے ہیں
ہر قدم پہ ملتے ہیں تیغ و دار کے سائے
مژدۂ محبت ہم پھر بھی عام کرتے ہیں
کس کو ہوش رہتا ہے میکدے میں ہستی کے
اس دم آنکھ کھلتی ہے جب نشے اترتے ہیں
کب نظر میں ان کی ہے فرق کافر و دیندار
جو تری محبت کا دم جہاں میں بھرتے ہیں
ابر رحمت اٹھتا ہے جھوم جھوم کر پیہم
جس مقام سے بھی ہم اہل غم گزرتے ہیں
خانقاہ کے دن بھی ہیں دوچار ظلمت سے
میکدے میں راتوں کو آفتاب ابھرتے ہیں
شیخ اور برہمن کے ہتکھنڈے ارے توبہ
آدمی کو بیگانہ آدمی سے کرتے ہیں
شکوۂ بہاراں کیوں کر رہے ہو ریحانیؔ
خون دل کھپانے سے گلستاں نکھرتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.