بارشیں خون کی تیز ہیں تیز ہیں خون کی آندھیاں
بارشیں خون کی تیز ہیں تیز ہیں خون کی آندھیاں
چاک در چاک اڑنے لگیں خون میں زیست کی چھتریاں
رات پٹرول کی آگ سے شہر میں یوں چراغاں ہوا
کانپ کر بجھ گئیں دل کے روشن جھروکوں کی سب بتیاں
بے اماں خلق کرفیو زدہ روز و شب کے اندھیرے میں گم
اپنی گردن میں ڈالے ہوئے اپنے کتبات کی تختیاں
دونوں ہی لکھ رہی تھیں لہو سے مرے سانحہ قتل کا
اک طرف حملہ ور آستیں اک طرف پاسباں وردیاں
گر یوں ہی آگ دامن سے اٹھتی رہی تو جلا ڈالے گی
حسن گل رنگ کا پیرہن عشق گلنار کی دھجیاں
جلتی آنکھوں کے موتی پگھلتے رہے اور احساس کے
ریگ زاروں میں تپتی رہیں میرے خوابوں کی پرچھائیاں
مرگ انبوہ کا جشن ماتم ہے روشن کریں ہم شہابؔ
پھلجھڑی اشک خوش رنگ کی تازہ زخموں کی مہتابیاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.