بات دل کی زباں پہ آئی ہے
دلچسپ معلومات
(22اکتوبر 1961ء )
بات دل کی زباں پہ آئی ہے
اب یہ اپنی نہیں پرائی ہے
خیر داغ جگر کی ہو یا رب
عمر بھر کی یہی کمائی ہے
چپ رہیں تو رہا نہیں جاتا
کچھ جو کہئے تو جگ ہنسائی ہے
عقل دو چار گام تک محدود
عشق کی دور تک رسائی ہے
متبسم ہوئے ہیں لب کس کے
کائنات آج مسکرائی ہے
وہ بھی ہے اک مقام عشق جہاں
ہم نے اپنی ہنسی اڑائی ہے
تجزیہ وصل کا کیا تو کھلا
یہ تو اک مستقل جدائی ہے
انقلاب اس سے بڑھ کے کیا ہوگا
کل جو پربت تھا آج رائی ہے
غیر ہم کو شکست دے نہ سکے
ہم نے اپنوں سے مات کھائی ہے
پاک دامن ہیں بادہ نوشی سے
پارسائی سی پارسائی ہے
دل چرایا تو ہیر خوب کیا
آنکھ طالبؔ سے کیوں چرائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.