بات اتنی بھی نہ تھی جی سے گزر جاتے ہم
بات اتنی بھی نہ تھی جی سے گزر جاتے ہم
اک نگاہ غلط انداز سے مر جاتے ہم
اب تو یوں لگتا ہے بس غم نے جکڑ رکھا ہے
غم نہ ہوتے تو بھلا کب کے بکھر جاتے ہم
دوپہر بھی نہ ڈھلی اور نہ پتھر ہی کٹے
شام ہوتی تو کہیں لوٹ کے گھر جاتے ہم
منزل شوق ہی ویران پڑی ہے کب سے
ورنہ اس راہ سے یوں خاک بسر جاتے ہم
تجھ سے ساون کی گھٹائیں تو نہیں مانگی تھیں
اتنے پیاسے تھے کہ اک بوند سے بھر جاتے ہم
کیسا کیسا نہ زمانے نے تراشا ہم کو
سخت پتھر بھی جو ہوتے تو سنور جاتے ہم
دکھ کے صحراؤں میں چیخوں نے قدم روک لیے
ورنہ آنکھوں کے سمندر میں اتر جاتے ہم
زرد چہرے پہ تھا گزری ہوئی خوشیوں کا غبار
پیار کی بوند بھی پڑتی تو نکھر جاتے ہم
نہ بلاتے ہمیں محفل تو سجائی ہوتی
لوح احساس پہ دکھ بن کے ابھر جاتے ہم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.