بات کچھ یوں ہے کہ یہ خوف کا منظر تو نہیں
بات کچھ یوں ہے کہ یہ خوف کا منظر تو نہیں
لاش دریا میں غنیمت ہے کہ بے گھر تو نہیں
دور صحرائے بدن سے نکل آیا ہوں مگر
ڈھونڈھتا ہوں میں جسے وہ مرے اندر تو نہیں
خواہشیں روز نئی روز نئی روز نئی
یہ مرا ذہن بھی اخبار کا دفتر تو نہیں
دور تک لے گئی کیوں جنبش انگشت مجھے
میں اشارے ہی سے پھینکا ہوا پتھر تو نہیں
بھسماسر بن گئی ہے آج مشینی دنیا
کیسی دستک ہے جگت موہنی در پر تو نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.