بازار میں وہ بردہ فروشوں کی ٹولیاں
بازار میں وہ بردہ فروشوں کی ٹولیاں
منڈی میں لگ رہی ہیں غلاموں کی بولیاں
ستر برس سے ہے یہ حکومت کا مشغلہ
دیتی ہے صبح شام ہمیں روز گولیاں
گانٹھیں ہماری جان کا آزار ہو گئیں
ہاتھوں سے دے کے ہم نے جو دانتوں سے کھولیاں
کب تک بنے رہیں گے تمہارے حضور میں
انسانیت کے نام پہ ہم ڈنڈا ڈولیاں
ٹپکا رہی ہیں رس وہ ابھی تک حلق میں بھی
کانوں میں وہ جو شہد سی باتیں ہیں گھولیاں
کیا رنگ لگ رہے ہیں تمہاری دعاؤں کو
لیکن ہماری آج بھی خالی ہیں جھولیاں
شہروں کی بھیڑ بھاڑ سے مطلب نہیں ہمیں
جنگل میں جا کے دل نے دکانیں ہیں کھولیاں
تنکوں سے بھی یہ ہستیاں ہلکی لگیں ہمیں
میزان میں ضمیر کے جب بھی ہیں تولیاں
سونا اگلنے والی زمینوں کو کیا ہوا
ترسی ہیں دانے دانے کو کیسے بھڑولیاں
شاید ہو ایک آدھ کہیں پر گڑی ہوئی
سینے پہ کان دھر کے تھیں سانسیں ٹٹولیاں
بھرتا ہوں صبح شام ترے انتظار میں
آنکھیں ہوں جس طرح سے تمہاری گھڑولیاں
ہم نے بڑے بزرگوں کی دستار کی طرح
قدریں بری طرح سے پرانی ہیں رولیاں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.