بازی اگرچہ زیست کی ہم ہار تو گئے
بازی اگرچہ زیست کی ہم ہار تو گئے
لیکن جو دل پہ نقش تھے آزار تو گئے
کتنے شناوروں کو یہ دریا نگل گیا
طغیانیوں میں ڈوب کے ہم پار تو گئے
بارش کا زور ہے مرے خستہ مکان پر
لگتا ہے اب کے یہ در و دیوار تو گئے
ہم لوگ اب قدیم نمائش کی چیز ہیں
بازار سے اب اپنے خریدار تو گئے
وہ درمیاں غزل کے جو اٹھ کر چلا گیا
اے بزم شاعری ترے معیار تو گئے
لگتا ہے اب کے جان ہی جائے گی ایک دن
اس شاعری کے شوق میں گھر بار تو گئے
چل اے نفسؔ کہ ہم بھی کہیں اور جا بسیں
دو چار تھے جو شہر میں غم خوار تو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.