بازوئے ناتوان میں جنبش تو دیکھیے
بازوئے ناتوان میں جنبش تو دیکھیے
شمع فسردہ سے اٹھی سوزش تو دیکھیے
اپنے ہی دائروں میں سبھی دوڑتے پھریں
اس دور کی ریاضت ورزش تو دیکھیے
مظلوم پر ہی لگتے ہوں الزام جب یہاں
اس دہر میں فضول کی پرسش تو دیکھیے
برسوں سے گونگے پن کی ہمیں ملتی رہی داد
ہم پر حکومتوں کی نوازش تو دیکھیے
آسودگی جہاں پے نمایاں تھی اب تلک
برپا ہے کس قدر وہاں شورش تو دیکھیے
بھٹکے جو اپنی راہ سے سالار قافلہ
ثابت قدم ہجوم کی لرزش تو دیکھیے
مانگی نہیں تھی مہر توجہ کبھی مگر
بے وجہ یہ سزا یہ نکوہش تو دیکھیے
لے کر زمیں کے ٹکڑے یہ دشینتؔ سے ادھار
خود اپنا گھر بنانے کی کوشش تو دیکھیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.