بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا
بچا لے دھوپ سے ایسا کوئی شجر نہ ملا
کہیں سراغ وفا قصہ مختصر نہ ملا
مچل رہے تھے جبین نیاز میں سجدے
یہ اور بات مقدر سے سنگ در نہ ملا
کریدتے رہے سب دوست میرے زخموں کو
سبھی نے طنز کیے کوئی چارہ گر نہ ملا
وہ کربلا تو نہیں دوستوں کی بستی تھی
تڑپتے رہ گئے پانی کو بوند بھر نہ ملا
ہجوم یاروں کا تھا میرے ساتھ ساحل تک
سمندروں میں مگر کوئی ہم سفر نہ ملا
لکھا کے لائے تھے محرومیاں مقدر میں
تجھے دعا نہ ملی اور مجھے اثر نہ ملا
ابھی تو اشک کی اک بوند سے یہ طوفاں ہے
قدم سنبھال لے اور آہ میں شرر نہ ملا
قدم بڑھائے تو پایاب تھا ہر اک دریا
مگر تلاش تھی جس کی وہی گہر نہ ملا
ہم اپنی زیست کو کرتے بھی کیا رقم اظہرؔ
ورق ملا بھی جو سیمیں تو آب زر نہ ملا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.