بچا تھا ایک جو وہ رابطہ بھی ٹوٹ گیا
بچا تھا ایک جو وہ رابطہ بھی ٹوٹ گیا
خفا جو خود سے ہوئے آئنہ بھی ٹوٹ گیا
فضائیں لاکھ بلائیں اڑان کیسے بھریں
پروں کے ساتھ ہی جب حوصلہ بھی ٹوٹ گیا
اس ایک پیڑ کے در پے تھیں آندھیاں کیا کیا
کہ اس کے ٹوٹتے زور ہوا بھی ٹوٹ گیا
پرندے ڈھونڈتے پھرتے ہیں پھر سے جائے اماں
شجر کے ساتھ ہی ہر گھونسلہ بھی ٹوٹ گیا
شفیقؔ وہ تو بنا ہے عجیب مٹی سے
کہ دے کے دستکیں سنگ صدا بھی ٹوٹ گیا
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 222)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (25Edition Nov. Dec. 1986)
- اشاعت : 25Edition Nov. Dec. 1986
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.