بدل کے رکھ دیں گے یہ تصور کہ آدمی کا وقار کیا ہے
بدل کے رکھ دیں گے یہ تصور کہ آدمی کا وقار کیا ہے
خلا میں وہ چاند ناچتا ہے زماں مکاں کا حصار کیا ہے
بہک گئے تھے سنبھل گئے ہیں ستم کی حد سے نکل گئے ہیں
ہم اہل دل یہ سمجھ گئے ہیں کشاکش روزگار کیا ہے
ابھی نہ پوچھو کہ لالہ زاروں سے اٹھ رہا ہے دھواں وہ کیسا
مگر یہ دیکھو کہ پھول بننے کا آرزو مند خار کیا ہے
وہی بنے دشمن تمنا جنہیں سکھایا تھا ہم نے جینا
اگر یہ پوچھیں تو کس سے پوچھیں کہ دوستی کا شعار کیا ہے
کبھی ہے شبنم کبھی شرارا فلک سے ٹوٹا تو ایک تارا
غم محبت کے رازدارو یہ گوہر آبدار کیا ہے
بہار کی تم نئی کلی ہو ابھی ابھی جھوم کر کھلی ہو
مگر کبھی ہم سے یوں ہی پوچھو کہ حسرتوں کا مزار کیا ہے
بہ ایں تباہی دکھائے ہم نے وہ معجزے عاشقی کے تم کو
بہ ایں عداوت کبھی نہ کہنا کہ آپ سا خاکسار کیا ہے
بنے کوئی علم و فن کا مالک کہ میں ہوں راہ وفا کا سالک
نہیں ہے شہرت کی فکر باقرؔ غزل کا اک رازدار کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.