بدن بدن کی ضرورت سے مار ڈالا گیا
بدن بدن کی ضرورت سے مار ڈالا گیا
جو بچ رہا وہ محبت سے مار ڈالا گیا
نہ تتلیوں سے تھا خطرہ نہ جگنوؤں سے خوف
ہمیں تو خیر شرارت سے مار ڈالا گیا
جو گرد آنے نہ دیتے تھے اپنے کپڑوں تک
انہیں بھی کیسی نفاست سے مار ڈالا گیا
خدائے حسن خرابی اسی نظر میں تھی
اک آئنہ مری حیرت سے مار ڈالا گیا
تمام زور خطابت خلاف تھا اپنے
عدو کے علم کی طاقت سے مار ڈالا گیا
اک اور شخص مرے دوستوں کے اندر تھا
اسے تھپک کے محبت سے مار ڈالا گیا
کئی گواہ بھی کم آپ کو سزا کے لیے
ہمیں تو ایک شہادت سے مار ڈالا گیا
- کتاب : آخری عشق سب سے پہلے کیا (Pg. 115)
- Author : نعمان شوق
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2018)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.