بدن کے دف پر لہو بہا لے دے رفت رفتن تھرک رہا ہے
بدن کے دف پر لہو بہا لے دے رفت رفتن تھرک رہا ہے
یہ کون نداف اندر اندر تمام روئی دھنک رہا ہے
ہم اپنے رویائے عشق سارے جلا کے خاشاک کر تو دیں گے
مگر وہ اک خواب جو مسلسل ہماری آنکھوں کو تک رہا ہے
فرشتے اجلے پروں سے سر سبز فصل رحمت بکھیرتے ہیں
غریب دہقاں حکایتوں سے زمیں کے داغوں کو ڈھک رہا ہے
میں اپنی تنہائیوں کے راگوں میں اپنی وحشت کو ڈھالتا ہوں
یہ میری سانسوں کے زیر و بم میں تمہارا دل کیوں دھڑک رہا ہے
ازل ابد ہست و بود میں تو سب اک اکائی میں ڈھل رہے ہیں
نظر پہ تھا منظروں کا پردہ سو اب یہ پردہ سرک رہا ہے
- کتاب : جسم کا برتن سرد پڑا ہے (Pg. 95)
- Author : امیر حمزہ ثاقب
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.