بدن کے پاس خوشی کی اساس ہو کر بھی
بدن کے پاس خوشی کی اساس ہو کر بھی
رکھا ہے غم سے تعلق اداس ہو کر بھی
ذلیل جب سے کیا ہے امیر لوگوں نے
نہیں وہ مانگتا کچھ بھوک پیاس ہو کر بھی
نہ کام کاج نہ روٹی سو چل پڑے پیدل
قدم رکے ہی کہاں اتنی یاس ہو کر بھی
ہوئی ہے رنگ محبت میں تتلیوں کی نمود
بدن نے دیکھ لیا بد حواس ہو کر بھی
غرور توڑا ہے راون کا میرے انگد نے
ہلا سکے نہ جو پا کو پچاس ہو کر بھی
اثر میں سارا زمانہ وبا کے ہے لیکن
گرا نہ حوصلہ خوف و ہراس ہو کر بھی
کسی کی مست نگاہی نے کر دیا بے خود
لگایا اس کو گلے نا شناس ہو کر بھی
یوں تو گزرتے ہے اچھے برے ہزاروں خیال
ملے گا کیا تمہیں انورؔ اداس ہو کر بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.