بدن کے ساتھ ہی آشوب جاں اٹھائے ہوئے
بدن کے ساتھ ہی آشوب جاں اٹھائے ہوئے
چلو کچھ اور یہ بار گراں اٹھائے ہوئے
ہمارے جیسے تو دو چار دس ہی ہوں گے یہاں
زمیں پہ پھرتے ہیں جو آسماں اٹھائے ہوئے
بڑھا دی موت نے کچھ اور بھی مری تکریم
ہیں ہاتھوں ہاتھ مجھے مہرباں اٹھائے ہوئے
حسین بن کے گزاری ہے زندگی میں نے
تمام یار رہے برچھیاں اٹھائے ہوئے
عجیب خواب یہ دیکھا گزشتہ شب میں نے
کھڑے ہیں لوگ مجھے درمیاں اٹھائے ہوئے
میں اس کے سامنے کب تک رہوں گا سینہ سپر
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے کماں اٹھائے ہوئے
تمام صحرا ہی گلشن دکھائی دیتا ہے
ہے تیرے پیروں کے جب سے نشاں اٹھائے ہوئے
تمام رات کی روداد کہہ رہی ہے نورؔ
یہ بجھتی شمع لبوں پر دھواں اٹھائے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.