بدن کی قید سے باہر ٹھکانا چاہتا ہے
بدن کی قید سے باہر ٹھکانا چاہتا ہے
عجیب دل ہے کہیں اور جانا چاہتا ہے
ابھی دکھاؤ نہ تصویر زندگی اس کو
یہ بچپنا ہے ابھی مسکرانا چاہتا ہے
ہر ایک رت نہیں بھاتی ہماری آنکھوں کو
ہمارا خواب بھی موسم سہانا چاہتا ہے
گھٹن ہو دل میں تو پھر شاعری نہیں ہوتی
غزل کا شعر فضا شاعرانہ چاہتا ہے
ترے بغیر بھی زندہ ہوں دیکھ لے اے دوست
اب اور کیا تو مجھے آزمانا چاہتا ہے
میں ان امیروں کی آنکھوں میں یوں کھٹکتا ہوں
کہ مجھ غریب کو سارا زمانہ چاہتا ہے
میں جاں نثار کروں اس پہ چاہتا ہوں مگر
وہ آسماں سے ستارے منگانا چاہتا ہے
ان آندھیوں کو یہی خوف کھائے جاتا ہے
فرازؔ پھر سے دیا اک جلانا چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.