بدن پر زخم تھے اور استخواں میں دن نہیں تھا
بدن پر زخم تھے اور استخواں میں دن نہیں تھا
بہت تارے تھے اپنے آسماں میں دن نہیں تھا
مری خواہش کے جتنا کب ہوا مجھ میں سراباں
کہ بحر دشت کے کون و مکاں میں دن نہیں تھا
اندھیرے میں تھے اپنے قہقہے بھی سسکیاں بھی
ہمارے وصل کے سود و زیاں میں دن نہیں تھا
بسنتی دھوپ تھی درکار ہریالی کی خاطر
خزانی رت تھی حصے گلستاں میں دن نہیں تھا
حقیقت خواب میں ڈھلنے کو تھی موجودگاں میں
سمے کی آنکھ کے آئندگاں میں دن نہیں تھا
ہمارے گرہن کو سورج لگانا کب تھا ممکن
بہت ڈھونڈا مگر عصر رواں میں دن نہیں تھا
نکلنا تھا گھروں سے رات میں تہمت برابر
اور اسودؔ اس ہوس پرور جہاں میں دن نہیں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.