بدن پہ اپنے لباس عذاب پہنے ہوئے
بدن پہ اپنے لباس عذاب پہنے ہوئے
چلا ہے پھر کوئی صحرا سراب پہنے ہوئے
ہر ایک شخص کی نظروں کو کر گیا عریاں
یہ کون گزرا یہاں سے نقاب پہنے ہوئے
فصیل جسم کو برباد کر کے چھوڑے گا
تمہارے ہجر کا موسم ہے آب پہنے ہوئے
ہوا چمن میں ہر اک برگ تر سے کہتی ہے
کسی کو دیکھا ہے تم نے گلاب پہنے ہوئے
ہمارے تکیے پہ کل نیند سر پٹکتی رہی
ہماری آنکھ تھی ایک ایسا خواب پہنے ہوئے
بدن پہ اس کے جو اس بار کھل رہا ہے بہت
قبائے عشق ہے خانہ خراب پہنے ہوئے
یہ ہندوی تو کبھی ریختہ رہی دلبرؔ
زبان اردو ہے کیا کیا خطاب پہنے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.