بدن پہ خاک وہ اپنی لگا کے لیٹا ہے
بدن پہ خاک وہ اپنی لگا کے لیٹا ہے
فلک کو پاؤں کے نیچے دبا کے لیٹا ہے
افیم اپنے غموں کی وہ کھا کے لیٹا ہے
غرور عشق کو تکیہ بنا کے لیٹا ہے
جھلس رہا ہے ستاروں کا جسم گرمی سے
جنوں کی آگ سے وہ دل جلا کے لیٹا ہے
اب اس کے ظرف پہ کیوں ہو نہ دو جہاں قربان
جو کہکشاں کو بھی گھر میں سجا کے لیٹا ہے
اب اس کی لاج بھی اللہ رکھنے والا ہے
جو اس کی شان میں دنیا لٹا کے لیٹا ہے
کسی کے رحم و کرم سے نہیں بلندی ہے
وہ کہسار پہ اپنی انا کے لیٹا ہے
ہے اس کے پاؤں کی مٹی میں ایک گنجینہ
وہ اپنا درد اسی میں چھپا کے لیٹا ہے
ہوا کے پاؤں سے باندھی ہے موت کی آہٹ
وفا کے دشت میں دھونی رما کے لیٹا ہے
وہ بوریا جسے تبریز اوڑھا کرتا تھا
اسے ندیمؔ زمیں پر بچھا کے لیٹا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.