بدن سے لڑتے ہوئے ضد پہ ڈٹ گیا اک دن
بدن سے لڑتے ہوئے ضد پہ ڈٹ گیا اک دن
جو ایک درد تھا آخر کو گھٹ گیا اک دن
ہمارے چہرے کو چھوڑو یہ ایسا دکھتا ہے
غبار وقت سے گر دل بھی اٹ گیا اک دن
مزاج کوئی بھی رہتا نہیں ہے دیر تلک
جو مجھ سے دور کھڑا تھا لپٹ گیا اک دن
وہ آبلہ مری رفتار جو بڑھاتا تھا
مسافتوں میں کہیں پر وہ پھٹ گیا اک دن
فقیہ شہر جسے اختلاف تھا تجھ سے
سدھر گیا کہ وہ رستے سے ہٹ گیا اک دن
زوال آتا ہے صحرا پہ آج دیکھ لیا
جو مجھ میں پھیلا ہوا تھا سمٹ گیا اک دن
مجھے گماں تھا کہ میرا ہے صرف میرا ہے
وہ ایک دریا تھا رستوں میں بٹ گیا اک دن
کنارے تھا تو مسلسل اداس تھا صابرؔ
سمندروں کو سفینہ پلٹ گیا اک دن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.