بڑے نادان تھے ہم ریت کو آب رواں سمجھے
بڑے نادان تھے ہم ریت کو آب رواں سمجھے
کھجوروں کے درختوں کو گھنیرا سائباں سمجھے
چمن میں میرے آنسو تھے جنہیں شبنم کہا سب نے
فلک پر میری آہیں تھیں جنہیں سب کہکشاں سمجھے
کبھی تجھ کو غبار رنگ میں کوئی کرن جانا
کبھی تجھ کو گرفت سنگ میں جوئے رواں سمجھے
کسی بے مہر صبحوں کو عطا کی روشنی ہم نے
کئی نا مہرباں راتوں کو بھی ہم مہرباں سمجھے
خزاں کے شہر میں بس میں بہاروں کی علامت تھا
مرے زخموں کو سب پھولوں کی نازک پتیاں سمجھے
سبھی کو دے رہا تھا وہ دعا جینے کی صدیوں تک
ہمارے شہر کے سب لوگ اس کو بد زباں سمجھے
تھکے بیٹھے تھے کچھ پنچھی لب دریا جنہیں اسعدؔ
ہم اپنی پر شکستہ خواہشوں کا کارواں سمجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.