بڑھ گئی یہ گردش سر ناتواں چکر میں ہے
بڑھ گئی یہ گردش سر ناتواں چکر میں ہے
اب زمیں چکر میں ہے یا آسماں چکر میں ہے
میں وہ بادہ نوش ہوں ساقی کہ مجھ کو دیکھ کر
غنچے حیرت میں ہیں اور پیر مغاں چکر میں ہے
آج ہے اس کی زباں پر کل زباں پر آپ کی
گردش قسمت سے میری داستاں چکر میں ہے
جو ہیں گویا بزم دشمن میں بھی وہ رکتی نہیں
بیچ میں بتیس دانتوں کے زباں چکر میں ہے
اب کہاں وہ سایۂ اشجار جس میں سر چھپائے
لوٹ کر گلزار کو باد خزاں چکر میں ہے
تیرہ دل کو سر چڑھا کر یہ ثمر حاصل ہوا
باڑھ آئی تیغ پر سنگ فساں چکر میں ہے
جو ہیں دانا پس رہے ہیں گردش ایام سے
آشیاں کی طرح سر پر آسماں چکر میں ہے
چھوڑنا گھر بار کا ہے موجب آوارگی
جسم بے جاں خاک میں روح رواں چکر میں ہے
گونجتے ہیں نالہ ہائے قیس کوہ و دشت میں
اب کدھر لے جائے ناقہ سارباں چکر میں ہے
حکم ہے آنے نا پائے اب صدائے سحر بھی
کس طرح روکے ہوا کو پاسباں چکر میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.