بڑھاؤ وعدۂ فردا پہ تم اپنی عبادت بھی
بڑھاؤ وعدۂ فردا پہ تم اپنی عبادت بھی
کہ فردا کیا نہ بھولوں گا میں فردائے قیامت بھی
شب خلوت جب اتریں کشتیوں پر کشتیاں مے کی
زمیں پر آسماں سے آ گیا دریائے رحمت بھی
تسلی اس دل بیتاب کی میں آپ ہی کر لوں
ہجوم یاس سے پاؤں کہیں کمبخت فرصت بھی
بہم اک مختصر سے دل میں ہیں شادی و غم دونوں
یہ چھوٹا سا مکاں اور اس میں دوزخ بھی ہے جنت بھی
سوال بوسہ پر بولے کہ دیکھو تم نے پھر چھیڑا
تمہیں کچھ ہو گئی ہے گالیاں سننے کی عادت بھی
یہاں زاہد بنے ہیں اور میخانے سے کل شب کو
نکالے جب گئے مے کش تو ان میں خود بدولت بھی
بنے وہ مدعی میرے تو میرے دوست بول اٹھے
کہ ہم حاضر ہیں دینے کو گواہی بھی شہادت بھی
وہ کہتے ہیں کہ جنت بھی ہے اک کوچہ حسینوں کا
بنا لینا اسی کوچے میں جا کر اپنی تربت بھی
نماز پنجگانہ سے ہے بہتر کام کیا زاہد
مگر نیت سے پہلے ٹھیک کر لے اپنی نیت بھی
بہت اچھا رہا جو بچ گیا عشق و محبت سے
محبت ہے کوئی یہ اہل دنیا کی محبت بھی
سر بالین تربت سب دکھانے کے یہ آنسو ہیں
دلوں میں یہ کہ ہو جائے کہیں جلدی فراغت بھی
فنا جب ہو گئے بحر حوادث میں تو ہم کو کیا
کنارے پر اگر کچھ ہڈیاں پہنچیں سلامت بھی
شب غم نیند بھی اول تو کیوں آنے لگی مجھ کو
اگر سویا تو اٹھنے کا نہیں صبح قیامت بھی
تری باتیں بھی نادرؔ کتنی لچھے دار باتیں ہیں
کچھ اظہار اطاعت بھی کچھ انداز متانت بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.