بڑھیں ادھر جو وہ نظریں تو پھر رہا نہ گیا
بڑھیں ادھر جو وہ نظریں تو پھر رہا نہ گیا
گناہ گار بنے پارسا بنا نہ گیا
بہار بن کے پھرے وہ چمن چمن بھی تو کیا
ہمارے دل کی کلی تو کوئی کھلا نہ گیا
اسی کا نام ہے وعدہ تو سو سلام مرا
کہ آج تک کوئی وعدہ وفا کیا نہ گیا
یہ اور بات کہ ہم کچھ بھی یاد رکھ نہ سکے
زمانہ کب ہمیں اپنا سبق پڑھا نہ گیا
اب اور اس سے سوا انقلاب کیا ہوتا
وہ دیکھا آنکھوں نے کانوں سے جو سنا نہ گیا
چمن چمن نہ ہوا اور کلی کلی نہ ہوئی
وہ آ کے باغ میں جب تک کہ مسکرا نہ گیا
بنام توبہ دئے توڑ کتنے خالی جام
مگر بھرا ہوا ساغر پٹک دیا نہ گیا
خبر سنی ہے کہ رندوں سے بھر گئی جنت
جناب شیخ کے بارے میں کچھ سنا نہ گیا
کسے خبر تھی کہ اظہار عشق بھی ہے گناہ
خدا کا شکر کہ بسملؔ سے کچھ کہا نہ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.