بڑھتے بڑھتے کوئی دن میں پہلے تو دریا ہوئے
بڑھتے بڑھتے کوئی دن میں پہلے تو دریا ہوئے
پھر پڑی افتاد کچھ ایسی کہ ہم صحرا ہوئے
کتنا سمجھایا یہ پتھر اور پتھر ہو گئے
وائے قسمت ہم بھی کیسے دور میں برپا ہوئے
تھی ازل سے ہی یہ مٹی تیرہ باطن دوں سرشت
تھے ہمیں ناداں کبھی پتھر بھی آئینہ ہوئے
آگ برساتا ہوا آخر وہ دن بھی آ گیا
بھر گئے روحوں میں شعلے جسم انگارہ ہوئے
سب اچانک تج گئے بستی کھلے در چھوڑ کر
چلمنیں سب بجھ گئیں سب بام بے جلوہ ہوئے
چوکھٹوں پر اجنبی قدموں کی ابھریں آہٹیں
سیڑھیاں دھڑکیں چھتیں لرزیں دریچے وا ہوئے
چاند کتنے اس افق پر ڈوب کر ابھرے ادھر
کتنے سورج اس طرف پنہاں ادھر پیدا ہوئے
لے گئے تم بھید سارے ساتھ یہ اچھا ہوا
تم ہوئے افشا نہ ان گلیوں میں ہم رسوا ہوئے
وہ جھروکا دم بخود گم صم رہا پھر بھی بشیرؔ
میں نے سو پوچھا وہ روز و شب وہ لمحے کیا ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.