بڑی پر فن نگاہ شرمگیں معلوم ہوتی ہے
بڑی پر فن نگاہ شرمگیں معلوم ہوتی ہے
غضب ڈھاتی ہے لیکن دل نشیں معلوم ہوتی ہے
فریب وعدۂ فردا کا اتنا سحر ہے مجھ پر
کبھی وہ ہاں بھی کہہ دیں تو نہیں معلوم ہوتی ہے
یقیں تھا آرزو نکلے گی دل سے ان کے آنے پر
مگر کمبخت وہ اب تک یہیں معلوم ہوتی ہے
عجب کیا ہے فلک بھی دشمنی پر اب اتر آئے
نظر اس شوخ کی کچھ خشمگیں معلوم ہوتی ہے
بہت تاکید کی تھی چشم تر کو ضبط گریہ کی
مگر بھیگی ہوئی پھر آستیں معلوم ہوتی ہے
محبت رفتہ رفتہ جان کی دشمن نہ ہو جائے
ابھی تک تو بہت کیف آفریں معلوم ہوتی ہے
نہیں سمجھا نہ سمجھے کوئی رتبہ خاکساری کا
ہمیں تو حاصل دنیا و دیں معلوم ہوتی ہے
ہوئے ہیں پاؤں زخمی ہوشیار اب اے دل ناداں
مجھے یہ کوئے قاتل کی زمیں معلوم ہوتی ہے
کہیں سے مانگ لائی ہے بلا کی شوخیاں ساحرؔ
گھٹا ساون کی بھی کتنی حسیں معلوم ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.