بغیر زیوروں کے بھی حسین ہے یقین ہے
بغیر زیوروں کے بھی حسین ہے یقین ہے
وفا جو اوڑھ لے وہ نازنین ہے یقین ہے
پرندگی میں اس طرح سے چھو رہا ہوں آسماں
کہ آسماں بھی اب مری زمین ہے یقین ہے
اسی لئے وہ پوچھتی ہے پیار پر یقیں ہے کیا
میں نامراد بول دوں یقین ہے یقین ہے
اگر تمہارے نقش پا ملیں وفا کی راہ پر
طویل راستہ بھی خوش ترین ہے یقین ہے
اسے یہ لگ رہا ہے پھر شراب پی گئی مجھے
وہ دو دکھا کے پوچھتا ہے تین ہے یقین ہے
تری صدا کی دھن پہ جھومتا رہوں گا عمر بھر
میں ناگ ہوں ترا کلام بین ہے یقین ہے
گو مجھ کو مولوی بتا رہا تھا یہ حرام ہے
مگر تو کہہ رہا ہے اس میں دین ہے یقین ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.