بہار محفل یاراں سجائی جاتی ہے
ہمارے ہاتھ سے اب پارسائی جاتی ہے
اندھیری رات میں پلکوں پہ دیپ جلتے ہیں
تصورات کی محفل سجائی جاتی ہے
چھپا چھپا کے چلو منظروں سے آنکھوں کو
کہ اس طرح بھی نظر کی صفائی جاتی ہے
یہ کیا جگہ ہے جہاں داغ داغ سینوں میں
خود اپنی بات بھی خود سے چھپائی جاتی ہے
ہر ایک صبح تمنا کا شہر سجتا ہے
ہر ایک شب نئی دنیا بسائی جاتی ہے
اسی کا نام زمانے نے رکھ لیا آنسو
یہ میری پیاس جو آنکھوں میں آئی جاتی ہے
ہر ایک ذہن میں ہوتا ہے رنگ خاک وطن
زمیں کی خوشبو ضمیروں میں پائی جاتی ہے
بچیں تو کیسے بچیں اپنے سائے سے ناشرؔ
بدن کی دھوپ منڈیروں تک آئی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.