بہت حسیں تھے ہرن دھیان بٹ گیا آخر
بہت حسیں تھے ہرن دھیان بٹ گیا آخر
وہی ہوا کہ مرا تیر اچٹ گیا آخر
ملی نہ جب کوئی راہ مفر تو کیا کرتا
میں ایک سب کے مقابل میں ڈٹ گیا آخر
بس اک امید پہ ہم نے گزار دی اک عمر
بس ایک بوند سے کہسار کٹ گیا آخر
بچا رہا تھا میں شہ زور دشمنوں سے اسے
مگر وہ شخص مجھی سے لپٹ گیا آخر
وہ اڑتے اڑتے کہیں دور افق میں ڈوب گیا
تو آسمان پروں میں سمٹ گیا آخر
کھلا کہ وہ بھی کچھ ایسا وفا پرست نہ تھا
چلو یہ بوجھ بھی سینے سے ہٹ گیا آخر
ہمارے داغ چھپاتیں روایتیں کب تک
لباس بھی تو پرانا تھا پھٹ گیا آخر
بڑھا کے ربط وفا اجنبی پرندوں سے
وہ ہنس اپنے وطن کو پلٹ گیا آخر
- کتاب : ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے (Pg. 23)
- Author :عرفان صدیقی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2023)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.