بہت خراب سمجھتا تھا میں رقیبوں کو
بہت خراب سمجھتا تھا میں رقیبوں کو
بدل دی رائے جو دیکھا مرے حبیبوں کو
یہ ماہتاب یہ تارے تم اپنے پاس رکھو
لہو کی روشنی کافی ہے شب نصیبوں کو
ابھی اندھیروں سے کس طور روشنی پھوٹے
ستارہ ساز ابھی روتے ہیں نصیبوں کو
بس ایک نعرۂ تحسین ہے فضاؤں میں
یہ کیسا روگ لگا وقت کے نقیبوں کو
جنوں کی رسم ہی ناپید ہو گئی یا پھر
ہمارے سر کی ضرورت نہیں صلیبوں کو
زمیں پہ روشنی بردار ہیں یہی کچھ لوگ
تو کیا سمجھتا ہے مشتاقؔ ہم ادیبوں کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.