بہت کیا خود سے وحشت ہے نہیں تو
کیا ہر اک سانس زحمت ہے نہیں تو
اسے جو دیکھ کے کھل سا گیا ہے
کیا پھر جینے کی حسرت ہے نہیں تو
اکیلے پن کے جنگل کے او باسی
تو چاہتا کیا رفاقت ہے نہیں تو
پراگندہ ترے افکار سارے
کیا ان میں کوئی ندرت ہے نہیں تو
یہ جذبہ یہ ترے بے قابو جذبہ
کیا ان میں کوئی شدت ہے نہیں تو
یہ جو بربادئ دل سب ہوئی ہے
تجھے کوئی ندامت ہے نہیں تو
ترے سر میں اٹھی ہے جو یہ شورش
سخن اس کی علامت ہے نہیں تو
بہت کھل کے جو تو یوں جی رہا ہے
تجھے مرنے کی عجلت ہے نہیں تو
خودی کو ڈھونڈھتا ہے کیوں تو خود میں
تجھے اپنی ضرورت ہے نہیں تو
تو خود میں ڈوبتا کیوں جا رہا ہے
تجھے خود سے محبت ہے نہیں تو
تری سانسوں میں کیوں یہ ابتری ہے
کیا جینا بھی مشقت ہے نہیں تو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.