بہت شاداب ہو لیکن بیابانی نہیں جاتی
بہت شاداب ہو لیکن بیابانی نہیں جاتی
کہ بام اوج چھونے سے بھی ارزانی نہیں جاتی
کئی چہروں نے آوازوں نے دل آباد رکھا ہے
مگر آنکھوں میں رقصاں ہے جو ویرانی نہیں جاتی
مجھے اپنی نمو کے واسطے تم سے بچھڑنا ہے
تمہارے ساتھ رہنے سے تن آسانی نہیں جاتی
میں اس دل کی سبھی سچائیاں تسلیم کرتا ہوں
مگر اک بات ایسی بھی ہے جو مانی نہیں جاتی
ہجوم شور و غل میں کون تھا کس نے پکارا تھا
یہاں تو اپنی بھی آواز پہچانی نہیں جاتی
سمیرؔ اس عشق میں انسان کیا اتنا بدلتا ہے
میں خود پر غور کرتا ہوں تو حیرانی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.