بہت سلجھی ہوئی باتوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں
بہت سلجھی ہوئی باتوں کو بھی الجھائے رکھتے ہیں
جو ہے کام آج کا کل تک اسے لٹکائے رکھتے ہیں
تغافل سا روا رکھتے ہیں اس کے سامنے کیا کیا
مگر اندر ہی اندر طبع کو للچائے رکھتے ہیں
ہماری جستجو سے دور تر ہے منزل معنی
اسی کو کھوئے رکھنا ہے جسے ہم پائے رکھتے ہیں
ہماری آرزو اپنی سمجھ میں بھی نہیں آتی
پجامہ اس طرح کا ہے جسے الٹائے رکھتے ہیں
ہوائیں بھول کر بھی اس طرف کا رخ نہیں کرتیں
سو یہ شاخ تماشا آپ ہی تھرائے رکھتے ہیں
اسی کی روشنی ہے اور اسی میں بھسم ہونا ہے
یہ شعلہ شام کا جو رات بھر بھڑکائے رکھتے ہیں
ہم اتنی روشنی میں دیکھ بھی سکتے نہیں اس کو
سو اپنے آپ ہی اس چاند کو گہنائے رکھتے ہیں
نشیب شاعری میں ہے ہماری ذات سے رونق
یہی پتھر ہے جس کو رات دن لڑھکائے رکھتے ہیں
یہ گھر جس کا ہے اس نے واپس آنا ہے ظفرؔ اس میں
اسی خاطر در و دیوار کو مہکائے رکھتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.