بہت تھکان بدن میں مرے سفر کی رہی
بہت تھکان بدن میں مرے سفر کی رہی
مگر وہ شوق کی منزل کہ ہر نگر کی رہی
وہ جس پہ چل کے سدا پاؤں زخم زخم ہوئے
نہ جانے کھوج ہمیں کیوں اسی ڈگر کی رہی
جو میری ذات کی پنہائیاں سمجھ لیتی
تمام عمر ضرورت اسی نظر کی رہی
جب اپنے آپ میں ڈوبے فلک کو چھو آئے
کہ احتیاج ہمیں اب نہ بال و پر کی رہی
ہمیں سے سنت منصور اب بھی زندہ ہے
کہ ہر زمانے کو حاجت ہمارے سر کی رہی
بلا سبب تو کرامتؔ پہ اپنی ناز نہیں
کہ چار دانگ میں شہرت مرے اثر کی رہی
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 529)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.