بیٹھے ہیں وہ کھنچے ہوئے مجھ خستہ تن کے پاس
بیٹھے ہیں وہ کھنچے ہوئے مجھ خستہ تن کے پاس
رہتے بھی ہیں تو رہتے ہیں شمشیر بن کے پاس
اس بت کے ساتھ یوں مری تصویر کھینچ دو
سینے کے پاس سینہ دہن ہو دہن کے پاس
ہم کو دعا دو باندھ دیا ہے گرہ میں دل
رکھا ہی کیا تھا زلف شکن در شکن کے پاس
لپٹی رہی گلے سے تری تیغ ہجر میں
قسمت سے عمر کٹ گئی بانکی دلہن کے پاس
دل میں ہزار تیر جگر میں ہزار زخم
کانٹے کھڑے ہوئے ہیں ہمارے چمن کے پاس
بوسے وہ خاک دے گا کہ دینے کے نام سے
مٹھی میں قول تک نہیں پیماں شکن کے پاس
شیریں کی یاد ہجر میں ہے عذر خود کشی
میٹھی چھری تھی تیشہ نہ تھا کوہ کن کے پاس
حسرت سے کہہ رہا ہے لب گور کشتگاں
مر مر کے پہنچے ہیں یہ مسافر وطن کے پاس
کیا دن تھے وہ کہ ہوتے تھے ہر روز رت جگے
سویا ہوں مدتوں بت نازک بدن کے پاس
دل کے پھپولے پھوٹے تو ابھرے جگر کے زخم
جنت لگی رہی مرے بیت الحزن کے پاس
پھرتی رہیں گی دلی کی گلیاں نگاہ میں
راسخؔ بہشت میں بھی رہوں گا وطن کے پاس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.