بجا کہ درپئے آزار چشم تر ہے بہت
بجا کہ درپئے آزار چشم تر ہے بہت
پلٹ کے آؤں گا میں گرچہ یہ سفر ہے بہت
ٹھہر سکو تو ٹھہر جاؤ میرے پہلو میں
وہ دھوپ ہے کہ یہی سایۂ شجر ہے بہت
دریدہ باہیں خزاں میں پکارتی ہیں چلو
ہوائے تند میں ہر شاخ بے سپر ہے بہت
کہوں تو وہ مری روداد درد بھی نہ سنے
کہ جیسے اس کو مرے حال کی خبر ہے بہت
کلی خمار کے عالم میں کسمساتی ہے
کھلی ہے آنکھ مگر نیند کا اثر ہے بہت
مرا قدم ہی نہیں ہجر میں بگولہ صفت
بچھڑ کے مجھ سے ترا غم بھی در بدر ہے بہت
ہیں منتظر کہ یہ دریائے درد کب اترے
ہیں خوش کہ دل کا سفینہ تو موج پر ہے بہت
نہ خلوت غم دنیا نہ بزم جاں توصیفؔ
تمہارے واسطے اک بیکسی کا گھر ہے بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.