بنتی ہے دن میں دنیا اکثر نگار خانہ
بنتی ہے دن میں دنیا اکثر نگار خانہ
پھرتا ہے جب نظر میں گزرا ہوا زمانہ
فرد عمل نہ دکھلا کیوں مجھ کو یاد آئے
گزرا ہوا زمانہ بھولا ہوا فسانہ
سر کو قفس پہ رکھے صیاد کہہ رہا ہے
بلبل کی جان نکلا اجڑا سا آشیانہ
ان پر پڑی تو ایسے تڑپے کہ پھر نہ سنبھلے
کہتے تھے جو یہی ہے دنیا کا کارخانہ
اب باغباں بھی اکثر حسرت سے دیکھتا ہے
ہے یادگار بلبل سنسان آشیانہ
جلاد تیرے صدقے قسمت سے مل گیا تو
مدت سے ڈھونڈھتی تھی میری اجل بہانہ
اک لا جواب ہستی سجدوں میں مٹ چکی تھی
پھر قبلہ کیوں نہ بنتا بیخودؔ کا آستانہ
پتلی جو پھر چلی تھی بیخودؔ تو بن چلا تھا
چھٹتا ہوا زمانہ مٹتا ہوا زمانہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.